بسم اللہ الرحمن الرحیم

جدید سائیکل کی ایجاد جرمنی کے ایک سول سرونٹ کارل وان ڈریس نے 1817ء میں کی، اور کہا جاتا ہے کہ 1868ء میں پہلی سائیکل ریس پیرس کے علاقے پارک آف سینٹ کلاؤڈ میں منعقد ہوئی۔ دنیا میں اس وقت سائیکلسٹ کو اپنی طرف راغب کرنے والی تین معروف سائیکل ریسیں ہیں جن میں ٹور ڈی فرانس 1903، جائرو ڈی اٹالیا 1909 اور ویولتا اے اسپانا 1935 شامل ہیں

ربوہ میں سائیکلوں کی رجسٹریشن کی جائے اورربوہ میں کم ازکم ایک ہزار سائیکلسٹ ہونے چاہئیں۔سائیکل سفر کیے جائیں اور اجتماع پرسائیکلوں کے ذریعہ آئیں ۔ناصرات بھی سائیکل چلانا سیکھیں اوران کی اتنی تربیت کرنی ہوگی کہ خواہ مخواہ  گھبرائیں نہیں‘‘۔(ماہنامہ تحریک جدیدمارچ و اپریل 2009ء)

اسی طرح آپ نے ایک مرتبہ فرمایا:

’’ورزش کریں صحت مند ہوجائیں اورآپ  سائیکل سواری کریںمجھے بہت جلد ایک لاکھ احمدی سائیکل چاہیے۔احمدی سائیکل وہ ہے جسے احمدی چلاتا ہواور ایک لاکھ ایسااحمدی سائیکل چاہئے جسے قریباً سومیل روزانہ چلنے کی عادت ہومیں نے بتایا تھاکہ اگرایک لاکھ سائیکل ہو اورسومیل روزانہ چلے تو ایک دن میں ہمارا احمدی ایک کروڑ میل سفرکررہاہوگااوریہ بڑی حرکت ہے اورحرکت میں بڑی برکت ہے۔‘‘(2نومبر 1973ء سالانہ اجتماع)

ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بڑی باقاعدگی سے سائیکل کی سواری فرماتے تھے ،آپ زیادہ تر ربوہ میں سفر کے لئے سائیکل کا استعمال ہی کرتے ،آپ ایک لمبا عرصہ تک دفتر سائیکل پر ہی تشریف لایاکرتے تھے۔

حضورانورایدہ  اللہ تعالیٰ اپنی طالب علمی کے دوران زرعی یونیورسٹی فیصل آباد سے ربوہ سائیکل پر آجایا کرتے تھے ۔فیصل آباد سے سائیکل پرربوہ آنے  کے بعض واقعات محترم  صاحبزادہ مرزاوقاص احمد صاحب صدر انصارللہ یوکے نے گذشتہ دنوں مجلس طاہرریجن کے سالانہ اجتماع کے  موقع پر ایک  جگہ سائیکلنگ کا ذکر کرتے ہوئے انصار کے ساتھ بھی شیئر کیے تھے۔

اسی طرح  چند سال قبل مکرم و محترم صاحبزادہ مرزا وقاص احمد صاحب  جب آپ نائب  صدر صف ِ دوم  تھے ،نے سائیکل سواری کو رواج دینے کے حوالہ سے یہ بھی فرمایا تھاکہ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فاستبقو الخیرات کی تشریح بیان کرتے ہوئے فرمایا تھاکہ اس کایہ مطلب نہیں کہ آپ قدرت رکھتے ہیں تو باقیوں کو پیچھے چھوڑ  چھاڑکر آگے نکل جائیں اور بقیہ انصار پیچھے بھٹکتے پھریں بلکہ فرمایا کہ دوسروں کو اپنے ساتھ لےکر چلنا  اصل تعلیم ہے اور فاستبقو الخیرات کا یہ پہلو بہت اہم ہے۔

مجلس انصاراللہ برطانیہ نے اپنے سالانہ پروگرام میں سائیکلنگ کو شامل کر رکھا ہے ۔اسی سالانہ پروگرامز میں سے ایک  پروگرام سپین میں  سائیکل سفر پر جانا اور وہاں پر سائیکل سفر کے ساتھ ساتھ تبلیغ کی نئی راہیں تلاش کر نا بھی تھا۔

چنانچہ امسال  سپین میں سائیکل سفر کے لئے ایک مربوط پروگرام تشکیل دیا گیا۔مکرم حافظ اعجاز احمد صاحب  نائب  صدر صف دوم مجلس انصاراللہ برطانیہ جو  AMEA CYCLING CLUB  کے چیئر میں بھی ہیں نے مکرم صدر صاحب کی اجازت سے سپین کا چار روزہ  سائیکل سفر  کا پروگرام رکھا جو مورخہ 10 مئی کو شروع ہوااور 14 مئی کو ختتام پذیر ہوا۔

سپین کا یہ دوسرا سائیکل سفر تھا گذشتہ سال سپین کے شہر ویلنسیا میں Ride 4  Peace  کے عنوان سے نہایت کامیاب سائیکل سفر رہا۔اس سفر کے نتائج  کااندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ  حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس کے مثبت اثرات کا ذکر  آسٹریلیا کی نیشنل  مجلس عاملہ کے ساتھ آن لائن میٹنگ کے دوران  سائیکلنگ  کو رواج دینے کے حوالہ سے فرمایا:

’’کہ انصارتو اس سے زیادہ سفر کرسکتے ہیں۔ابھی یوکے کے انصار سپین کاسفر کرکے آئے ہیں وہاں انہوں نے تبلیغی لٹریچر  بھی تقسیم کیا اور سفر بھی کیا۔ لوکل عیسائی سائیکلسٹ آرگنائزیشن کو بھی اپنے ساتھ ملالیا اور انہوں نے تقریباً دوسوکلومیٹر کاسفر کیا جس میں پہاڑی اورپلین علاقہ بھی تھا۔ انصار توسفر کرسکتے ہیں آپ صرف ان کو Under estimate کررہے ہیں ‘‘۔( 25؍ مئی الفضل انٹرنیشنل لندن)

امسال  کا سفر  سپین کی نئی ابھرتی ہوئی اسلامی تاریخ کے مقام مسجد بشارت سے  کرنے کا پروگرام بنا۔سپین کے اس سفر کے لئے مکرم حافظ اعجاز احمد صاحب اور ان کی ٹیم نے بڑی  جانفشانی سے انتظامات کیے اور تقریباً  اس پر تین ماہ  کام ہوا۔آپ نے مرکزی سطح پر ایک کمیٹی تشکیل دی جس نے  جگہ کےتعین ،قیام ، سائیکل کے روٹ، سائیکل سفر کے لئے کٹ جس میں امن کے پیغام  کی ترویج ہو سکے،قیام و طعام  ،بر یگزٹ کے قوانین کو ملحوظ رکھتے ہوئے  امیگریشن اور کسٹم کے معاملات کو ڈیل کرنے کے لئے شب و روز کام کیا،اس سلسلہ میں سائیکلسٹ کو راغب کرنے اور پھر ان کی رجسٹریشن کے لئے غیرمعمولی کام کیا۔ایسے  انصار بھائی جو اس سفر میں شمولیت کے خواہاں تھے ان کے ساتھ آن لائن میٹنگز کا باقاعدگی سے انتظا م کیا گیا۔سفر کی تفصیلات کے علاوہ  سائیکلسٹ کی آراء بھی لی گئیں۔چنانچہ ان تما م انتظامات کو حتمی شکل دینے کےلئے درج ذیل  ڈیپارٹمنٹ تشکیل دیئے  گئے اور ان کومختلف  ذمہ داریاں  سپرد ہوئیں۔

فنانس ڈیپارٹمنٹ:

روٹ  پلاننگ ڈیپارٹمنٹ

قیام و طعام ڈیپارٹمنٹ

ٹرانسپورٹیشن

امیگریشن اور کسٹم معاملات کے ڈیل کرنے کا ڈیپارٹمنٹ

میڈیا کوریج اور فوٹوگرافی

تبلیغی مساعی اور مہمانان کرام  کی ریسپشن

چنانچہ حسب پروگرام مورخہ 10 ؍مئی 2024ء کو تمام سائیکلسٹ جو اسلام آباد میں موجود تھے وہ نماز جمعہ کے  معاً بعد مسجد مبارک کے باہر تشریف لے آئے ۔ پیارے آقا سیّدنا حضرت  خلیفۃ المسیح   نہایت متبسم انداز میں تمام سائیکلسٹ کی طرف متوجہ ہوئے اور ایک ناصر مکرم مبارک بسراء صاحب مربی  سلسلہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ مربی صاحب آپ  وین پر جارہے ہیں ،حضور انور کے پرنور چہرہ مبارک اور رعنائی میں اس قدر کھوئے ہوئے تھے کہ انہیں حضورانور کے سوال کی سمجھ ہی نہ آپائی تو پھر ساتھی ناصر نے توجہ دلائی کہ  حضورانورنے آپ سے سوال پوچھا ہے تب مکر م مربی صاحب نے عرض کی کہ یہاں سے جہاز پر اور پھر  سپین جاکر سائیکلنگ کروں گا انشاءاللہ نیز مکرم مربی صاحب نے دعا کی درخواست کرتے ہوئے عرض کی کہ حضور سے دعا کی درخواست ہے کہ پورا سفر مکمل  کر سکوں ۔پیارے آقا نے ایک مرتبہ دوبارہ  سب سائیکلسٹ کی طرف دیکھتے ہوئے دعا ئیہ کلمات کے ساتھ  الوداع کیا۔

حضورانور کا دیدار کرکے گویا انصار بھائیوں میں ایک نئی روح پیدا ہوئی۔ کیاخوب  لمحات تھے بعض  سائیکلسٹ کے تاثرات اور جذبات یقیناً دیدنی تھے،ایک دوست کہنے لگے کہ سفر کالطف سفر کے آغاز سے قبل ہی دوبالاہوگیا۔ انصار کے ساتھ اس مختصر سی ملاقات کو جرمنی سے آئے ہوئے لجنہ کے وفد اور دیگر مہمانان کرام نے بھی دور سے نظارہ کیا اور اپنے پیارے خلیفہ کے دیدار  کا موقع پا کر گویا پھولے نہیں سمارہے تھے۔ الحمدللہ، پیارے آقا سے جماعت کی محبت  صرف منفرد ہی نہیں بلکہ لاثانی ہے۔عشق و وفا کے ان دریچوں کا کوئی پیمانہ ہی نہیں ۔اے اللہ ہمیں

یہ لمحات نصیب کرتاچلاجا۔ آمین

تقریباً پچاس افرادپر مشتمل قافلہ  کے عازم سفر ہونے سے قبل مکرم و محترم  صاحبزادہ مرزاوقاص احمدصاحب صدرمجلس انصاراللہ نے تمام

سائیکلسٹ سے ملاقات کی اور مشترکہ دعاکے ساتھ مسجد مبارک کے کارپارکنگ ایریا   سے روانہ کیا۔

تمام سائیکلسٹ کے سائیکل ایک روز قبل بذریعہ وین بھجوادئیے گئے تھے۔ چنانچہ مسجد مبارک سے بذریعہ کار ایئر پورٹ کے لئے روانگی ہوئی ۔لندن کے دوسرے معروف ائیرپورٹ Gatwick Airport سے اکثر سائیکلسٹ سپین کے شہر  Malaga کے لئے روانہ ہوئے۔

 اگر یہ کہا جائے کہ مالاگا شہرسپین کے  ملکی و غیر ملکی سیاحوں کی  ایک بڑی آماجگاہ  ہے تو اس میں مضائقہ نہیں۔ لیکن ہمارے لئے مالاگا کچھ اس لئے بھی ایک خاص اہمیت کا حامل ہے کہ یہاں سے ایک ڈیڑھ گھنٹہ کی مسافت پر جبل طارق ہے ،وہ مقام جس سے دو عظیم فاتح طارق بن زیاد اور پھر عبدالرحمن الداخل سرزمین سپین میں داخل ہوئے اورکئی صدیوں تک اس ملک میں اللہ اور اس کے رسولﷺ کا نام بلند کیے رکھا۔

مالاگاایئر پورٹ پر رات گئے سپین میں خدمات سر انجام دینے والے واقف زندگی کارکن مکرم طارق عبدالغالب  صاحب خوش آمدید کہنے کے لئے موجود تھے ۔آپ نے تمام سائیکلسٹ کا استقبال کیا ۔جزاکم اللہ احسن الجزاء

اس مرتبہ ہمارا قیام مسجد بشارت میں تھا۔ مسجد بشارت وہ مسجد جو صوبہ اندیلیسا میں تقریباً  سات سو سال کے طویل عرصہ کے بعد تعمیر ہونے والی مسجد ہے۔جس کی بنیادامام الزماں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کے دورخلافت ثالثہ میں رکھی گئی اوراس کاافتتاح  نہایت

متضّرعانہ دعاؤں کے ساتھ دورِ خلافت رابع میں  ہوا۔یہ مسجد بھی  اپنے اندر ایک قربانیوں کی داستان سمیٹے ہوئے ہے ۔

۱۱؍مئی کو سائیکلسٹ کاقافلہ رات دو بجے مسجد بشارت میں پہنچا ، مین روڈ سے ہی مسجد کے مینارے دکھائی دینے لگے ۔ اس مسجد کودیکھتے ہی قلب و جان  گویا ایک  خاموش سکون میسر آیا اور بہتوں کی خواہش کی تکمیل بھی ہوئی ،جنہیں اس مبارک مسجد کا پہلی مرتبہ دیدار کرنا نصیب ہو رہاتھا۔ میرے ساتھ بیٹھے ناصر تو بہت ہی جذباتی ہوئے جارہے تھے ،درود شریف کے ورد کےساتھ نسبتاً بھری ہوئی آواز میں بولے کہ زندگی کی ایک اورخواہش کی تکمیل ہورہی ہے ۔الحمدللہ

11؍مئی آج پہلا روز ہے ۔انصارنے چند گھنٹے آرام کیا اورنماز فجر کی ادائیگی کے بعد  مکرم حافظ اعجاز احمد صاحب نے آج کے پروگرام کا اعلان کیا۔پہلے سے طے شدہ پروگرام کے تحت ناشتہ کی ٹیبل پر سپین کے لوکل سائیکلسٹ بھی تشریف لانا شروع ہو گئے چنانچہ جماعت احمدیہ کی روایتی پہچان جہاں ہررنگ نسل کے لوگ اکٹھے ہوجاتے ہیں وہ دکھائی دینے لگی ۔افریقہ ،یورپ ، جاپان اور ایشین احباب کا گویا ایک خوبصور ت گلدستہ وہاں موجود تھا۔ جو حقیقی رنگ میں جماعت احمدیہ کی نمائندگی تھی۔الحمدللہ

سائیکل سواری کا پہلاروز ،سپین میں سورج اپنی پوری آب و تاب کا ساتھ اپنی کرنیں بکھیر رہاتھا،سورج سے نکلنے والی کرنیں چہروں کو دمکا رہی تھیں تووہیں بعض حساس طبیعیت کے مالک گرمی کی تپش سے نسبتاً فکر مند بھی دکھائی دیئے۔پہلے روز کے ٹریک میں تقریباً اسّی(80) سے زائد مہمان سائیکلسٹ   ہمارے ساتھ سواری کے لئے اپنے روایتی انداز میں تیار تھے،مکرم حافظ صاحب نے انہیں پلان سے آگاہ کیا۔صبح نو بجے مکرم امیر صاحب سپین نے تمام سائیکلسٹ کو الوداع کیا ۔

سائیکلسٹ کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیاتھا۔

گروپ 1-اے اور 1-بی   کا سفر تقریباً 90 کلومیٹر پر مشتمل تھا۔ایک مشکل اور تھکادینے والے سفر، تین ہزار فٹ کی بلندی اور اوپرسے 32 سینٹی ڈگری کی گرمی کی شدت نے اپنا خوب رنگ جمایا ،نشیب و فراز پرمشتمل یہ ٹریک بڑا ہی خوبصورت  اور سپین کے کلچر کی بھرپور عکاسی کر تا دکھائی دیا۔ یہ ٹریک پیدروآباد،بوجلانس،کاسٹرووڈیل ریو اور واپس پیدروآباد پر محیط تھا ۔25میل کی مسافت کے بعد ایک گاؤں میں کسانوں کا

ایک نہایت خوبصورت اور روایتی میلہ  اپنے رنگ بکھیر رہا تھا۔ ہر پیرو جوان اور بچے  رنگ برنگے لباسوں میں ملبوس  ٹریکٹر ٹرالی پر بیٹھ کر لطف اندوز ہورہے تھے کچھ سڑک پر آکر نغموں  کی آواز میں ہم آواز ہوتے ہوئے دھمال ڈال رہے تھے ،ایک تعداد گھڑسواری کا شوق بھی ساتھ ساتھ پورا کرتی دکھائی دی۔سٹرک ہجوم سے کھچا کھچ بھری پڑی تھی ، تمام سائیکلسٹ کو تقریباً ایک کلومیٹر سفر پیدل طے کرنا پڑا تاہم سب اس میلے سے خوب لطف اندوز ہوئے ۔سارے رستہ تاحد نظرزیتون کے درخت جو صدیو ں کی تاریخ کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں،جگہ جگہ سورج مکھی اور دیگر فصلوں کی بہار تھی ،سٹرک کے کنارے کے ساتھ ساتھ زیتون گویا آپ کی حفاظت پر معمور ہیں اور گندم کی فصل کے وسیع و عریض  علاقے بل کھاتی ہوئی سٹرک کے  کنارے وطن عزیز کی یاد تازہ کرتے رہے۔شہتوت کے خود رو  درخت جابجا اپنی موجودگی کااحساس

دلاتے رہے ۔بعض دوستوں نے ان سے استفادہ بھی کیا۔ے (50) پچاس کلو میٹر کی مسافت کےلئے سفر کاآغاز کیا۔پہلے روز  گروپ بی کی سربراہی مکرم حافظ اعجاز احمد صاحب  نے کی ۔اس گروپ کے تاثرات سے یہی اخذ کیا گیا کہ اس روز گروپ بی سب سے  زیادہ خوش رہا اوروہ  سب سے زیادہ لطف اندوز ہوئے،کیوں کہ چڑھائی بھی نسبتاً کم  تھی 2000فٹ اور مسافت بھی  اور مکرم حافظ صاحب کی شگفتہ طبیعت نے گویا چار چاندلگائے رکھے۔اس کا اندازہ دوسرے روز  ہوا  جب گروپ  B نے دوبارہ مطالبہ کیا کہ آج بھی حافظ صاحب ہی ہمارے گروپ کی سربراہی کریں ،اس مطالبہ پر مکرم چیئرمین صاحب نے برجستہ فرمایا کہ میں بھی سائیکلنگ کے لئے آیا ہوں۔

پہلے روز سائیکلنگ  کے اختتام پر  حسب پروگرام تمام سائیکلسٹ مسجد بشارت کے سبزہ زار میں جمع ہوئے اور شام کے عشائیہ کی تیاری میں

جت گئے ،انصار بھائیوں نے بڑی محنت سے Ride 4 Peace   کی بیک گراؤنڈ کامیابی سے فکس کی ۔اسی طرح انصار نے مہمانوں کے لئے بیٹھنے کے انتظامات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔

عشائیہ تبلیغی نقطہ نگاہ سے سب سے اہم پروگرام ٹھہرا، جس میں کثرت سے مہمان کرام تشریف لائے ، مہمانوں کے لئے ایک ہال میں کتب کی

نمائش لگائی گئی تھی جس میں اسپینش زبان میں قرآن کریم کے تراجم کے علاوہ دیگر بکس بھی شامل تھی ۔ ہال کی  ایک دیوار پر گذشتہ سال ویلنسیا   سائیکل سفر کی تصاویر آویزاں کی گئی تھیں۔مہمانان کرام نے خصوصی طور پر ان تصاویر اور اس کے ذریعہ دیئے گئے پیغام امن کو سراہا۔تقریباً  تما م مہمانو ں نے نمائش کو  وزٹ کیا ۔

اسی طرح مہمانوں کو مسجد کے اندر داخل ہوکر مسجد کو دیکھنے کا موقع ملا۔ان اسپینش مہمانوں میں سے ایک جوڑا مسجد کے اندر جانے سے نسبتاً گھبر ا  رہا تھا۔ ان سے دریافت کرنے پر معلوم ہو ا  کہ ان کا خیال تھا کہ ٹوپی یا سر ڈھانپنے کے بغیر وہ اندر داخل نہیں ہوسکتے ۔جب انہیں بتایا گیاکہ ایسی کوئی بھی پابندی نہیں تووہ بہت خوش ہوئے اور مسجد کے اندر جاکر مسجد دیکھی  ۔ مسجد میں نمازوں کے بورڈ کے بارہ میں پوچھا

تو جب بتایا گیا تو  بڑی حیرانگی کے ساتھ دریافت کرنے لگے  کہ  ایک دن میں  پانچ مرتبہ عبادت کی جاتی ہے !

عشائیہ میں تقریباً 80مہمانان کرام شامل ہوئے۔جس میں آفیشل کالج آف کمرشل ایجنٹس کے صدر انتونیوسیرانو اور پیدرو آباد کے میئر خوآن انتونیورے یس بھی شامل تھے۔

مہمانوں نے اپنی مختصر تقاریر میں جماعت احمدیہ کے سائیکلسٹ گروپ کی کاوشوں کو بہت سراہا،مسٹر انتونیوسیرانو نے اپنے پیغام میں کہا

’’ یہ ایک بہت خوش اخلاق جماعت ہے  جس کا سب کو تعارف ہونا چاہئے۔‘‘

اسی طرح پیدرو آبادکے میئر مسٹر  خوآن انتونیورے یس نے اپنی تقریر میں بیان کیا کہ

’’یہ ایک بہترین مثال ہے جسے ہر قسم کے مذہبی  یا قومی  تعصب کے بغیر جاننے کی کوشش کی جانی چاہیئے‘‘۔

عشائیہ میں ایک ماہر سائیکلسٹ  کی بات بڑی پزیرائی حاصل کرنے میں کامیاب رہی جب انہوں نے منفرد انداز اور ذاتی تجربہ کو ، سائیکلنگ سے اجتناب کرنے والوں کو پکارتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کبھی اپنی زندگی میں سائیکلنگ کے نتیجہ میں مرنے والا شخص نہیں دیکھانیز بیان کیا کہ

’’ سائیکلنگ سے کوئی نہیں مرتا‘‘۔

اس سفر میں ہمیں گذشتہ سال  ویلنسیامیں ہمارے گروپ کو lead کرنےوالے سائیکلسٹ ۔۔۔۔۔تقریباً 600کلومیٹر کا سفر طے  کرکے ہمارے ٹرپ میں شامل ہوئے وہ بھی سٹیج پرتشریف لائے اور جماعت اور سائیکلنگ کلب کا شکریہ ادا کیا اور اپنے گذشتہ سال کے تجربہ کو بیان کرتے ہوئے کہاکہ وہ اس قدر محظوظ ہوئے تھے اس لئے دوبارہ اس پروگرا م میں شامل ہوئے وہ کسی صورت اس موقع کو ہاتھ سے کھونا نہیں چاہتے تھے۔

 یہ ایک لمبی اور پرکشش تقریب تھی مہمانان کرام رات گئے تک بیٹھے رہے ۔اس تقریب میں مہمان  شاملین سائیکل سفر کو  مجلس انصاراللہ برطانیہ کی جانب سے تیارکردہ سوونئیرمکرم   امیرصاحب سپین  نے پیش کیے ۔ اس ساری تقریب میں سٹیج سیکرٹری اور ترجمہ کی ڈیوٹی مکرم و محترم فضل الٰہی قمرصاحب ابن  مکرم مولانا کرم الہی ظفر صاحب  مرحوم سرانجام دیتے رہے۔آپ نے تقریب کے ابتدائیہ میں ا سپینش زبان میں جماعت کی تعلیمات اور امن کے پیغام کو نہایت  احسن رنگ میں بیان فرمایا۔ جس سے تمام حاضرین نے پوری توجہ اور انہماک سے استفادہ کیا ۔

تقریب کے اختتام پر تمام حاضرین کی خدمت میں پاکستانی روایتی کھانا پیش کیا گیا جسمیں  قورمہ، نان ، پلاؤ،رائتہ،سبزی  ،فش اور باربی کیو شامل تھا۔ٹیبل پر تما م مہمانوں کو کھانا پیش کیا جارہا تھا  جس میں گرما گرم سیخی اور تکہ کباب اس محفل کو دوبالا  کر رہے تھے۔

گراسی پلاٹ کی ایک جانب باربی کیو ٹیم تازہ بتازہ  گرماگرم کباب تیار کر رہے تھے تو دوسری جانب مکرم مظفرصاحب کی نگرانی میں   ضیافت ٹیم کھانا پہنچارہی تھی ۔ قیادت ایثار کی 13 رکنی ضیافت ٹیم کی شب و روز کی محنت لگاؤ اور مہمان نوازی  کا جذبہ یقیناً قابل دید تھا۔الحمدللہ

حاضرین کے اصرار پر  ضیافت ٹیم کو سٹیج پر بلایا گیا ۔ ضیافت ٹیم کی نمائندگی میں مکرم مظفر  صاحب نے اپنے جذبات کی یو ں عکاسی کی کہ ہمارے پیارے آقا اور جماعت کا نظریہ ہی محبت اور اخوت اور خوشیوں کو بانٹنا ہے اوراسی نظریہ کو ملحوظ رکھتے ہوئے  ہم اپنی سی کوشش کرتے ہیں تاکہ’ محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں ‘ کی  آفاقی تعلیم کو عملی صورت میں ڈھالنے میں  اپنا کردار ادا کرسکیں۔ تمام مہمانوں نے  اپنے جذبات اور احسان مندی کا اظہار زوردار تالیوں سے کیا  پھرتمام ضیافت ٹیم کی گروپ فوٹو بھی بنائی گئی۔

دوسرے دن 12؍مئی کےسائیکلنگ ٹریک کو سب  سے کٹھن اورمشکل قرار دیاجاسکتا ہے یہ اپنی نوعیت کا سب سے بلند پہاڑی ایریا اور چڑھائی تھی جسے اکثریت پہلی مرتبہ سر کرنے جارہی تھی۔یہ ٹریک پیدرو آباد سے شروع ہوااور مسلسل اونچائی کی طرف بڑھتاگیا۔ یہ علاقے منٹورو ، کارڈینا اورپھر واپسی کے لئے پیدروآبادپرمشتمل تھا،  اس ٹریک کی اونچائی تقریباً 5000فٹ تھی اور یہ سطح زمین سے تقریباً 55 کلومیٹر بلند ی کی طرف مسلسل چڑھائی تھی اور اس ٹریک کا کل فاصلہ 110کلومیٹر سے زائد بنتا ہے ،  بل کھاتی ہوئی سڑک مختلف پہاڑی سلسلوں سے گزرتی ہوئی کارڈینا کے ریسٹ ہاؤس تک پہنچتی ہے ۔سٹرک کے دونوں اطراف میں بہت گہری کھائیاں دکھائی دیتی ہیں اور قدرتی مناظر کاایک نہ ختم

ہونے والا سلسلہ بھی آپ کی مسافت کو آسان بنائے جاتا ہے۔

گروپ 1-B جب کارڈینا کی طرف گامزن تھا تو محترم فضل الٰہی قمرصاحب اپنی کار پر نیچے کی طرف آرہے تھے شدید گرمی تھی ۔ہم لوگ ایک درخت کے سائے تلے پیچھے رہ جانے والے چند انصار کا انتظار کررہے تھے تو اپنی کار روک کر فرمانے لگے کہ آپ کو کوئی اعانت چاہئے تو بتائیں،فرمانے لگے گاڑی میں پانی ہے اگر چاہئے تو بتائیں  ،اس وقت ہم اپنی پانی کی بوتلوں کو دوبارہ بلکہ سہ بارہ Refill کرچکے تھے ۔ مکرم فضل الٰہی قمر صاحب مسکراتے ہوئے فرمانے لگے کہ ابھی آپ کو کا فی اوپر جانا ہے میری تو گاڑی کو یہ چڑھائی چڑھتے ہوئے خوب زور لگانا پڑا ہے ،دیکھ لیں گرمی بہت ہو گئی ہے آپ جاسکیں گے۔ ہم سب نے ان کاشکریہ ادا کیا اور عرض کی کہ ہم انشاءاللہ ضرور مکمل کریں گے آپ

ہمارے لئے دعا کرتے رہیں۔

یاد رہے چڑھائی سے نیچے کی طرف آتے ہوئے بہت خطرناک موڑ آتے ہیں سائیکلسٹ کو اگرچہ زور نہیں لگانا پڑتا لیکن سائیکل کو کنٹرول کرنا کوئی آسان کام نہیں، مکرم چیئرمین صاحب  نےبطور خاص ہدایات دیں تھیں کہ پوری احتیاط کے ساتھ نیچے کی طرف آیا جائے اس ہدایت پر سختی سے عملدرآمد کے

نتیجہ میں تمام سائیکلسٹ بحفاظت یہ سفر طے کرنے میں  کامیاب ہوئے ۔الحمدللہ

کارڈینا تک کاسفر کئی پہلوؤں سے یادگار رہے گا،اس رستہ میں سائیکلسٹ کو اگرچہ مسلسل چڑھائی کی طرف جانا ہوتا ہے لیکن یہ چڑھائی اگرگرمی کی

شدت جو 32سینٹی گریڈ کے لگ بھگ ہو تو دن میں تارے د کھانے کے مترادف ٹھہرتی ہے۔کارڈینا ریسٹ ہاؤس پہنچنے سے تقریباً ایک کلومیڑ پہلے اچانک اس قدر Steep Hill آتی ہے  اس کے لئےسائیکلسٹ شاید ذہنی طور پر تیارہی نہیں ہوتا جس وجہ سے اسے سر کرنا ہر کسی کےلئے بسااوقات آسان نہیں ہوتا۔اس کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ گروپ 1-B میں صرف چار انصار بھائی اسے سائیکل پربیٹھ کر سر کر سکے

وگرنہ اکثر کو کچھ حصہ سائیکل سے اترکر پیدل چڑھنا پڑا۔

اس ٹریک پر مکرم چیئرمین صاحب  کی اجازت سے گروپ 1-A اور گروپ 1-B ہی کو جانے کی اجازت تھی۔اس یادگاری ٹریک کو سب سے پہلے مکرم حافظ اعجازاحمدصاحب، مکرم رشیداحمدصاحب مربی سلسلہ اور مکرم آصف احمد ڈوگرصاحب   کو چند اسپینش سائیکلسٹ کے ساتھ مکمل کرنے کی توفیق ملی ۔الحمدللہ

یہی ٹریک گروپ 1-B والوں  کے لئے تھا۔اس گروپ میں تقریباً 13 سائیکلسٹ شامل تھے ،اس گروپ میں شامل ایک سائیکلسٹ کی سائیکل پنکچر ہونے کی وجہ سے رکنا پڑا جس کے نتیجہ میں شدید گرمی کا سامنا رہا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے سب دوستوں نے  ہمت نہیں ہاری اور 112کلومیٹر کاسفر مکمل کیا حالانکہ جب ہم کوئی 90 % سفر مکمل کرچکے تھے اور دوپہر کے تقریباً چارساڑھے چار کا وقت تھامکرم چیئر مین صاحب کی طرف سے ہمارے گروپ لیڈر مکرم علی مبارک خان صاحب قائد ذہانت  و صحت و جسمانی کو فون آیا کہ گرمی کی شدت بہت زیادہ ہوچکی ہے اگر انصار بھائی گاڑی پر آنا چاہیں تو آسکتے ہیں ۔عین اس وقت ہم سب سٹرک کنارے ایک  زیتون کے درخت کے نیچے رکے ہوئے تھے اور علی خان صاحب اور مکرم انعام اللہ خان صاحب اپنے سروں پر پانی ڈال رہے تھے تاکہ گرمی کی شدت کوکم کر سکیں ۔لیکن تمام انصار بھائیوں نے اپنے مصمم ارادے پر قائم رہتے ہوئے کہا کہ ہم سب اپنا یہ سفر سائیکل پرمکمل کریں گے جو ہم نے مکمل کیا ۔الحمدللہ

یہ سفریقیناً ایک یادگاری سفر تھا، انصار بھائیوں نے اپنے ارداہ اورہمت کو بروئے کارلاتے ہوئے اسے مکمل کیا۔ یہاں مجھے مکرم انعام اللہ خان صاحب کی بات یاد آگئی ، جب انہوں نے کارڈینا والی  Steep  مکمل کی تو علی خان صاحب نے کہاکہ آپ نے بڑی ہمت دکھائی ہے  تو انعام صاحب کہنے لگے کہ جب میں نے دیکھا کہ میرے ساتھ والے سب سائیکل سے نیچے اترگئے ہیں تو ایک دفع تو وہ بھی اترنے لگے لیکن اچانک ان کے ذہن میں طارق بن زیاد  کی یاد تازہ ہوئی تو چنانچہ میں نے  ہمت نہیں ہاری اور کامیابی سے اوپر چڑھ گیا ہوں۔ الحمدللہ

گروپ    B جس میں 13 سائیکلسٹ شامل تھے دوسرے روز مکرم ثاقب رشید صاحب کی رہنمائی میں 70 کلومیٹر کا اچھا خاصہ لمبا سفر طے کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اس گروپ میں اکثر سائیکلسٹ بڑے پُر امید تھے کہ اس سفر کے بعد ان کا جذبہ توانا ہوا ہے اور آئندہ مین گروپ کے ساتھ سفر اختیار کریں گے۔  سائیکلنگ میں پریکٹس بہت اہمیت کی حامل ہے ۔جس کا  دوران سفر  اکثر نئے سائیکلسٹ کو شدت سے احساس ہوا۔ زیادہ تر سائیکلسٹ گروپ 1 میں شامل تھے جنہوں نے تقریباً 250 کلومیٹر کاسفر طے کیاجن کی تعداد 27 تھی جبکہ گروپ  B میں 13 سائیکلسٹ تھے ۔نئے سائیکلسٹ کی تعداد میں مزید اضافہ ہو گا۔انشاءاللہ

دوسرے دن کے اختتام پر بھی شام کے کھانے پرچند اسپینش مہمانوں کی آمد متوقع تھی چنانچہ واپس آکردوبارہ  ٹیبل اور سیٹنگ کا انتظام کیا گیا۔اسی

طرح باجماعت نمازوں کی باقاعدگی سے توفیق ملتی رہی۔الحمدللہ

سائیکل سفر کے تیسرےروز نسبتاً Relax Day تھاجس میں سائیکلسٹ کو سہولت تھی کہ قرطبہ کی سیر کےلئے سائیکل پر بھی جاسکتے ہیں اور بس پر بھی ۔چنانچہ بڑی تعداد میں انصاربھائی سائیکل کے ذریعہ ہی قر طبہ گئے۔

سائیکلسٹ تاریخی رومن پل جو دریائے الکبیر پر تعمیر شدہ ہے جو دنیاکے قدیم پلوں میں سے ایک پل  کہا جاسکتاہے اس  کو  کراس کر کے  قرطبہ کی تاریخی مسجد میں داخل ہوئے ۔

یہاں پر سائیکلسٹ  کے ساتھ میڈیا  کا بھی رابطہ ہوا اور تصاویر لی گئیں ۔ یہاں پر لی گئی ایک تصویر میڈیا کی زینت بھی بنی۔یہاں پر سائیکلسٹ نے حسب پروگرام اپنی مرضی سے مختلف جگہوں  کا تعین کیا اور خوب سیر کی ۔

پل کے بائیں طرف قدیم پانی کی سپلائی اور کھیتوں کی آبیاری کے نظام کی عکاسی ہوتی ہے جہاں ابھی بھی صدیوں پرانا ٹنڈوں والا وہیل دکھائی دیتا ہے جس کے ذریعہ پانی کو دریا سے کھیتوں کی طرف سپلائی کیا جاتا اوربعد میں اس سے انرجی  کے حصول میں معاونت لی گئی۔دریا کے وسط میں پانی کے بہاؤ کو کنٹرول کرنے کے  نظام کے آثار بڑی شدو مد سے دکھائی دیتے ہیں۔ دنیا بھر سے  سیاح ادھر  کا رخ کرتے ہیں اور یہ پل آج بھی اپنے چاہنے والوں کو خوش آمدید کہتاہے۔دریا کے کنارے بڑی تعدا دمیں سیاح ان تاریخی مقامات کو دیکھنے کے لئے قیام کرتے ہیں ،دریا میں موجود مچھلیاں اٹکھیلیاں کرتی دکھائی دیتی ہیں اورجب آپ انہیں کچھ کھانے کے لئے ڈالتے ہیں تو بڑی بڑی مچھلیاں بھی نمودار ہوتی ہیں جو اندازاًدس دس پندرہ پندرہ کلو وزن کی کم ازکم ہوں گی۔یہ منظرآنکھوں کو بڑا ہی بھلا محسوس ہو تا ہے۔پل کی اسی جانب ایک میوزیم بھی ہے جس میں بہت سارے تاریخی نوادرات   رکھے گئے ہیں۔یہ میوزیم تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔

قرطبہ شہر کا نا م ذہن میں آتے ہی اسلامی سلطنت کی یادیں تازہ ہو جاتی ہیں وہیں دل غمگین سا ہو جاتا ہے ۔خاص طور پر جب آپ  کوایک عظیم

الشان مسجد میں سر پرٹوپی بھی رکھنے کی اجازت نہ ہو۔

قرطبہ مسجد سب سے زیادہ  توجہ کی مرکز رہی ۔ یہ مسجد عظیم لیڈر عبدالرحمن الداخل  جنہیں عبدالرحمن اوّل بھی کہاجاتا ہے نے 784ء میں تعمیر کروائی تھی اور زوال کے بعد 1238ء میں اسے گرجا گھر میں تبدیل کر دیاگیا۔ یہ مسجد فن تعمیر میں آج بھی ایک خاص مقام رکھتی ہے۔مسجد اور گردونواح میں اسلامی تعمیرات  کا شاہکار عمارتیں اور تاریخی گلیاں اور اس کے کوچے سب ہی دل کو لبھادینے والے تھے ،ایک ساتھی پہلی مرتبہ اس شہر میں داخل ہوئے ،کافی جذبانی کیفیت سے تھے۔ یہی شہر ہے جس میں علم و حرفت کے دریچے کھلے ،اسی شہر میں دنیا کی سب سے بڑی لائبریری تھی۔اس شہر اور اس کے باسییوں کےتذکرہ کےلئے ایک الگ تفصیلی مضمون تقاضا کر تاہے ۔

رات تک انصار بھائی اس شہر کے تاریخی ورثہ  سے محظوظ ہوتے رہے ۔رات دوبارہ اپنے مسکن مسجد بشارت میں پہنچے اپنے اللہ کے حضور سربسجود ہوئے ۔اگلے روزمکرم چیئرمین صاحب کی ہدایت کی روشنی میں علی الصبح تمام عارضی رہائشوں اورکچن ،باتھ رومز کی مکمل صفائی کی گئی ،اس وقار عمل کے بعد تمام انصار بھائی روانگی کے لئے   کوچ میں بیٹھ کر مالاگا کے لئے روانگی ہوئی۔ روانگی سے قبل مکر م و محتر م  امیر صاحب سپین مکرم عبدالرزاق  صاحب اور لوکل مربیان کرام الوداع کے  لئے موجود تھے ،الوداعی ملاقات کے  لئے مکرم منور جمیل صاحب  جو مقامی مجلس انصار اللہ پیدرو آباد  کے ممبر ہیں ۔اپنے گھر سے قلفی تیار کر کے لے کر آئے اور تمام سائیکلسٹ کو پیش کی ۔ٹھنڈی اور

شیرینی سے بھر پور قلفی سے سب لطف اندوز ہوئے اس کے بعد تقریباً 11 بجے مکرم امیر صاحب نے کوچ میں داخل ہو کر دعا کروائی ۔

دعا کے اختتا م پر انصار بھائیوں نے بلند آواز میں نعرے مارتے  ہوئے اپنے جذبات کا اظہار کیا  اور اس طرح ہمار ا انتہائی تاریخی سفر اپنے اختتام کو پہنچا۔

اس دورہ کے دوران میڈیا ٹیم جس کی سربراہی مکرم عثمان احمد صاحب قائد تبلیغ کر رہے تھے ۔ انہوں نے سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم  کے ذریعہ مجلس انصاراللہ کے سائیکل سفر اور اس کے ذریعہ تبلیغی مساعی کو ساتھ ساتھ پبلش کیے رکھا ۔  سوشل میڈیا پر اس سفرسائیکل کاچرچا ہزاروں لوگوں تک پہنچا،جو یقیناً قابل ستائش ہے۔سوشل میڈیا کے علاوہ اللہ کے فضل سے  تین اخبار وں میں بھی  اس سفرسائیکل  کی خبریں شائع ہوئیں جن کی اشاعت تقریباً 69000 ہے اس  ذریعہ  سےامن کا پیغام اہل اندلس تک پہنچا ۔ الحمدللہ

رپورٹ از:                                             وحید احمد ۔ممبر سائیکلنگ کلب و ناظم اعلیٰ طاہر ریجن۔